سیرت و کردار حضرت عثمان بن عفان ؓ

اٹھارہ ذوالحج کو خلیفہ سوم، داماد رسولﷺ حضرت عثمان بن عفان ؓ کا یوم شہادت ہے۔خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا تعلق قریش کے معزز قبیلے بنو امیہ سے تھا۔آپؓ کا نام عثمان، کنیت ابو عمر اور لقب ذوالنورین تھا۔ سلسلہ نسب عثمان بن عفان بن ابوالعاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف پانچویں پشت میں نبی کریم ﷺ سے جا کر ملتا ہے۔ آپ کی نانی جان’’ام حکیم البیضاء‘‘ حضرت عبدالمطلبؓ کی بیٹی تھیں جو حضورﷺ کے والد ماجد حضرت عبداللہؓ کی سگی بہن تھیں۔ اس رشتہ کے لحاظ سے آپؓ کی والدہ حضورﷺ کی پھوپھی کی بیٹی تھیں۔ آپؓ کی ولادت عام الفیل کے چھ سال بعد ہوئی۔
آپؓ ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے ابتداء میں اسلام قبول کیا۔ابن اسحاق کے قول کے مطابق آپ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کی دعوت پر اسلام قبول کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت علیؓ اور حضرت زیدبن حارثہ ؓکے بعد مردوں میں چوتھے آپؓ ہیں جو مشرف بہ اسلام ہوئے۔
آپؓ حیاکا پیکر تھے،امام مسلمؒ اور امام بخاری ؒ نے ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت کی ہے کہ جب حضرت عثمان غنی ؓ ہمارے پاس آتے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا لباس درست فرمالیتے اور فرماتے تھے کہ میں اس (عثمان غنی) سے کس طرح حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔ آپؓ سخاوت، محاسن اخلاق، حلم و وقار، تقوی وطہارت اور حسن معاشرت میں اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔تاریخ انسانیت میں ایک منفرد مقام اللہ تعالی نے حضرت عثمان غنیؓ کو عطا فرمایا۔ سوائے آپؓ کے کسی نبی کی دو بیٹیاں کسی امتی کے نکاح میں یکے بعد دیگرے نہیں آئیں۔ غزوہ بدر کے فوراً بعد جب حضورﷺ کی پیاری صاحبزادی اور حضرت عثمان غنی ؓ کی اہلیہ حضرت رقیہ ؓ کا وصال ہو گیا تو حضرت عثمانؓ ان کی جدائی میں بہت غمگین رہا کرتے تھے۔ حضورﷺ نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم ؓکا نکاح آپؓ کے ساتھ کر دیا۔ آپؓ امت مسلمہ کے عظیم محسن ہیں۔ ہجرت کے بعد مسلمانوں کیلئے پینے کے پانی کی سخت تکلیف تھی۔ آپؓ نے ایک یہودی سے منہ مانگی قیمت ادا کر کے صاف شفاف پانی کاکنواں خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کر دیا۔ اس موقع پر آپؓ کو زبان رسالت مآبﷺ سے جنت الفروس کی خوشخبری ملی۔ مسجد نبوی شریف کی توسیع کیلئے پچیس ہزار درہم کی ملحقہ زمین خرید کر وقف کر دی۔ غزوہ تبوک کے موقع پر مدینہ طیبہ میں مسلمان تنگدستی کا شکار تھے۔ حضورﷺ نے صحابہ کرام کو بڑھ چڑھ کر مالی تعاون کی تلقین فرمائی۔ حضرت عثمان غنی ؓ نے تین سو اونٹ مع ساز و سامان کے پیش کئے۔ اس موقع پر حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’آج کے بعد کوئی عمل عثمانؓ کو نقصان نہیں دے گا‘‘ تفسیر خازن اور تفسیر معالم التنزیل کی روایات کے مطابق آپؓ نے ایک ہزار اونٹ مع ساز و سامان حضورﷺ کی خدمت میں پیش کئے۔ اسی غزوہ کے موقع پر آپؓ نے ایک ہزار نقد دینار پیش کئے تو نبی کریم ﷺ نے ہاتھ اٹھا کر تین دفعہ دعا کی ’’اے اللہ میں عثمان سے راضی ہوں تو بھی راضی ہو جا‘‘ (ازالۃالخفاء)دورصدیقیؓ میں جب قحط سالی کی صورت پیدا ہوئی تو آپ نے ایک ہزار اونٹوں پر آنے والا غلہ محتاجوں میں تقسیم فرمادیا۔ حالانکہ تاجر کئی گنا زیادہ قیمت پر خریدنے کیلئے تیارتھے۔ غزوہ بدر کے موقع پر آپ ؓ کی اہلیہ حضرت رقیہ ؓ سخت بیمار تھیں۔ ان کی تیمار داری کی وجہ سے آپ ؓ شریک نہ ہو سکے لیکن حضورﷺ نے آپ ؓ کو بدری صحابہ میں شمار کرتے ہوئے مال غنیمت میں سے حصہ عطا فرمایا۔ امامِ ترمذی، ؒ حضرت انسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’بیعتِ رضوان‘‘ کے موقعہ پر سیدنا عثمان غنیؓ ، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ’’سفیر‘‘ بن کر مکہ گئے تھے کہ خبر مشہور ہوگئی کہ سیدنا حضرت عثمان غنیؓ شہید کر دیئے گئے….. حضور ﷺ نے فرمایا کہ کون ہے جو حضرت عثمان غنیؓ کا بدلہ لینے کیلئے میرے ہاتھ پر بیعت کریگا، اس وقت تقریباً چودہ سو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضرت عثمان غنیؓ کے خون کا بدلہ لینے کے لئے حضور ﷺ کے ہاتھ مبارک پر ’’موت کی بیعت‘‘ کی اس موقعہ پر خاتمنبیین حضورﷺ نے اپنا ایک ہاتھ حضرت عثمان غنیؓ کا ہاتھ قرار دیتے ہوئے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا کہ یہ ’’بیعت‘‘ عثمانؓ کی طرف سے ہے اس بیعت کا نام بیعت رضوان اور ’’بیعت شجرہ‘‘ ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بیعت رضوان کرنے والوں سے اپنی رضا اور خوشنودی کا اعلان فرمایا ہے۔
آپؓ کا شمار ان دس جلیل القدر صحابہ کرامؓ میں ہوتا ہے جنہیں نبی کریمﷺ نے دنیا میں جنت کی بشارت دے دی تھی۔ دو مرتبہ آپؓ کو اللہ کے راستے میں ہجرت کی سعادت نصیب ہوئی۔ ایک دفعہ آپؓ نے اپنی اہلیہ حضرت رقیہؓ کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی اور نبی کریمﷺ کے مدینہ شریف جانے کے بعد وہاں سے ہی آپؓ ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے۔ آپؓ نے پوری امت کو ایک قرأتِ قرآن پر جمع کیا۔ حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں شروع ہونے والے فتوحات کے سلسلے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ آپؓ کے دور میں طرابلس، شام، افریقہ، جزیرہ قبرص، جزیرہ روڈس، قسطنطنیہ، آرمینیا، خراسان، طبرستان اور کئی ایک مزید علاقے فتح ہوئے۔ آپؓ نے مدینہ پاک میں نہری نظام کو مضبوط کیا۔آپؓ کا معمول تھا ہر جمعہ کو ایک اونٹ ذبح کراکر اس کا گوشت غریبوں میں بانٹتے۔اسی طرح جس دن اسلام لائے، اس دن سے شہادت کے روز تک بلا ناغہ ہر جمعہ کو ایک غلام خرید کر اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے آزاد کرنے کا معمول رہا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آپ نے کل 2 ہزار 400 غلام آزاد فرمائے۔شہدا کے گھرانوں کی کفالت آپ اپنا فرض منصبی سمجھ کر اپنے مال سے کیا کرتے تھے۔
۔سیلاب سے بچاؤ کیلئے ڈیم تعمیر کئے۔ کنویں کھدوائے۔ آپؓ حد درجہ شرم و حیا کرنے والے تھے۔ ترمذی اور ابن ماجہ میں حضرت مرہؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ آنے والے وقت کے فتنوں کا ذکر فرمارہے تھے۔ ایک شخص سر پر کپڑا ڈالے ہوئے پاس سے گزرا تو آپؓ نے اس کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ’’فتنوں کے دور میں یہ شخص راہ ہدایت پر ہوگا‘‘ حضرت مرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو وہ حضرت عثمان غنیؓ تھے۔ حضرت مرہ ؓفرماتے ہیں کہ میں نے پھر پوچھا یا رسول اللہ کیا یہ شخص اس وقت راہ ہدایت پر ہو گا تو آپؓ نے فرمایا’’ہاں یہی‘‘۔ ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ حضورﷺ نے حضرت عثمانؓ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ فتنوں کے دور میں اس شخص کوشہید کر دیا جائے گا‘‘حضرت عمرؓ نے قاتلانہ حملے میں زخمی ہو نے کے بعد اور اپنی شہادت سے پہلے خلیفہ کے انتخاب کیلئے چھ افراد کی کمیٹی بنائی تھی۔ ان میں حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمان بن عوف اورحضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم شامل تھے۔ حضرت عمر ؓ کی شہادت کے بعد تین دنوں میں گفت و شنید اور افہام و تفہیم کے بعد حضرت عثمان بن عفانؓ کوخلیفہ سوم منتخب کیا گیا۔ منتخب ہونے کے بعدآپؓ نے خطبہ میں فرمایا ’’یاد رکھو دنیا سراپا فریب ہے۔دنیا کی زندگی تمہیں غلط فہمیوں میں ڈال کر شیطان کے پنجہ وساوس میں مبتلا نہ کر دے۔ فانی عمر کی مہلت کافی حد تک گزر چکی ہے نہ جانے کس وقت پیغام اجل آجائے۔ جو لوگ تم سے پہلے گزر چکے ہیں ان سے عبرت حاصل کرو۔ اللہ نے دنیا کی مہلت اس لئے دی ہے کہ آخرت سنوار لو‘‘آپؓ نے تقریباًبارہ سال تک امور خلافت سر انجام دیئے۔ آخری دور میں ایک یہودی النسل عبداللہ بن سبا نے کوفہ، بصرہ اور مصر کے فسادی گروہوں کو جمع کیا اور اسلام کے خلاف ایک گہری سازش کی۔ آپؓ پر طرح طرح کے الزامات کی بوچھاڑ کی گئی۔ آپؓ نے ہر سوال کا معقول جواب دیا۔ ذوالحج کے مہینہ میں اکثر صحابہ کرام حج کی ادائیگی کیلئے مکہ شریف چلے گئے تھے۔ سازشیوں کو موقع مل گیا اور آپؓ کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ کئی دنوں تک آپؓ اور آپؓ کے اہل خانہ کو بھوکا پیاسا رکھا گیا۔ ساتھیوں نے جن میں امام حسینؓ اور حسنؓ بھی تھے، مقابلے کی اجازت مانگی تو آپؓ نے فرمایا کہ’’میں اپنے نبی کے شہر کو خون سے رنگین نہیں کرنا چاہتا‘‘ آپؓ نے تمام مصائب و آلام کے باوجود حضورﷺ کی وصیت کے مطابق خلعت خلافت نہیں اتاری۔ اس طرح بروز جمعۃ المبارک بمطابق 18 ذو الحج 35 ؁ء ہجری میں انتہائی درد ناک انداز میں آپؓ کو شہید کر دیا گیا۔ آپ کی قبر مبارک مسجد نبوی شریف کے پاس جنت البقیع میں ہے۔ اللہ تعالی ان کی قبر پر کروڑ کروڑ رحمتیں نازل فرمائے (آمین)

اک ستارہ تھا جو کہکشاہ ہو گیا۔۔۔۔

17 جون صبح نماز کے بعد جب اُٹھا تو دیکھا موبائل پر بیس سے زائد مِس بل لگی تھی،شاید زندگی میں میرے ساتھ پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ میرا موبائل سائیلنٹ موڈ پر لگ گیا اور مجھے علم نہ ہوا،دل بے چین ہوا۔اللہ خیر کرے،کال کرنے والے زیادہ تر بلاگرز یا جماعتی دوست احباب تھے۔اتنی دیر میں معاویہ بھائی کی کال آ گئی۔جب کال اُٹھائی تو معاویہ بھائی نے ہیلو کے بعد جو بات کہی وہ یہ تھی “بلال خان شہید ہو گیا ہے”۔جیسے میرے پیروں تلوں زمین کھسک گئی،آنکھوں سے بے دریغ آنسو بہنے لگے۔یقین نہیں آ رہا تھا کہ چند دن قبل جس سے بات کی ،ہستے مسکراتے،نڈر نوجوان جس نے اپنی زندگی کی صرف بائیس بہارے دیکھی تھی ہم سے جدا ہو گیا۔بلال خان شہید سے میرا تعلق غالباً سن 2012 میں بنا جب انھوں نے فیس بک پر لکھنا شروع کیا لیکن پہلی ملاقات دو سال قبل مری میں ہوئی پھر اس کے بعد مختلف پروگراموں میں ملنا جلنا رہا۔بلال بھائی حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ نڈر اور بے باک فری لینسر صحافی،بلاگراور وی لاگر تھے۔اپ انٹرنیشنل اسلامیک یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔آپ نے سوشل میڈیا یا زندگی کے کسی بھی پلیٹ فارم پر قدم رکھا اسکی بلندیوںجواد
چھو لیا۔کئی بار حق گوئی کی بنا پر آپ کے فیس بک اکاؤنٹ بلاک کیے گے، کئی بار مختلف انداز میں ڈرایا دھمکایا گیا لیکن بغیر کسی خوف اور ڈر کے آپ نے حق گوئی کا سفر جاری رکھا۔جس دور میں اداروں کے مظالم بڑھنے لگے بے قصور لوگوں کو گھروں سے اٹھایا جاتا ماورائے عدالت مار دیا جاتا اُس دور میں محمد بلال خان نے مظلوموں کے لیے سدا بلند کی۔آپ نے شام،فلسطین،برما افغانستان اور کشمیر کے مظلوموں کےلیے بھی سوشل میڈیا پر آواز بلند کی۔ختم نبوت بلخصوص آسیہ مسیح کیس میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔قادیانوں،رافضیوں اور ملحدین کو اپنے قلم کے زریعے ناکوں چنے چبھوائے۔بلال خان ایک سچا پاکستانی تھا جس نے ہمیشہ اپنے قلم سے پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی۔
محمد بلال خان کسی کی پروہ کیے بغیر ہمیشہ سچ لکھتا بولتا رہا،کئی ایک رہبروں کو جو رہزنوں کے بیس میں تھے کو اکسپوز کیا،جس کی وجہ سے کئی بار غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں کے تیر و نشتربرداشت کیے۔
بلال خان جہاں دفاع ختم نبوت ودفاع ناموس رسالت کا پروانہ وہی پر تحریک دفاع صحابہ کا دیوانہ تھا،دو سال قبل جب میں نے ٹویٹر پر ٹیم سولجرز آف صحابہ تشکیل دی تو میری بہت حوصلہ افزائی کی اور ہماری اس ٹیم کے روح روا رہے۔بلال دوسرے کے درد و غم کو اپنا درد و غم سمجھنے والا شخص تھا۔ایک دن مجھے unknown نمبر سے کال آئی اور مجھے دھمکی اور بلیک میل کیا گیا جب میں نے ایک جگہ ذکر کیا تو مجھے بہت حوصلہ دیا۔
اللہ رب العزت نے بلال خان کو بہت سی صلاحتوں سے نوازہ تھا انہی صلاحتوں کیوجہ سے چھوٹی سی عمر میں بلال نے اپنا آپ منوایا۔
محمد بلال خان ایک نا ڈر اور حق گو انسان تھا کئی بار برملا یہ اظہار کیا کہ مجھے یقین ہے کہ میں مار دیا جاؤ گا۔ایک بار میں نے کہا بلال بھائی اپنی قلم میں مصالحہ کم رکھا کرے اور احتیاط کیا کرے کہی آپ بھی لاپتہ افراد کی فہرست میں نا آ جائے تو مسکرا کر کہنے لگے ایسا نہیں ہو گا مجھے سیدھا ٹپکا دیا جائے گالیکن مجھے یقین ہے جو رات قبر میں ہے وہ آئی گی۔دفاع ناموس رسالت، دفاع ناموس صحابہ،دفاع پاکستان اور حق گوئی آپ کا جرم ٹھہرا۔بزدل دشمن نے دلیل کے بجائے خنجر کا استعمال کیا اور بڑی بے دردی سےاسلام آباد میں شہید کیا
محمد بلال خان کی شہادت کی خبر سن کر مجھ سمیت جہاں انکے دوست احباب اور رفقاء غم سے نڈھال ہوئے وہی پر ماروی سرمد اور اقرار الحسن جیسے لوگ جو بلال بھائی سے شدید اختلاف رکھتے تھے غمگین نظر آئے۔۔۔۔
محمد بلال خان کی پہلی نماز جنازہ اسلام آباد میں ادا کی گئی اور دوسری ایبٹ آباد میں ادا کی گئی اور وہی پر پرچم سپاہ صحابہ سمیت سپرد خاک کیا گیا۔اللہ تعالی محمد بلال خان کو کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائے۔
دشمن نےمحمد بلال خان کو تو دبا دیا لیکن یہ بھول گیا کہ بلال تو آتے جاتے رہتے ہیں آذانیں جاری رہتے ہیں۔
~جواد
#justice4MuhammadBilalKhan

تین دن جنت میں۔۔۔

ہر سال کی طرح اس عید پر بھی دوستوں کے ساتھ سیر و تفریح کا پروگرام بنا جس کا پورے سال انتظار رہتا ہے کہ کب عید کی چھٹیاں ہو اور ہم گھومنے کے لیے نکل جائے۔اس سال گلگت جانے کا پروگرام بنا جو بعد میں کینسل کرنا پڑا۔پھر ہم دوستوں نے فیصلہ یہ کیا کہ کیوں نا جنت نظیر کشمیر کی سیر کی جائے۔کشمیر میں موجود ایک دوست سے معلومات لی گئی اور طے شدہ پروگرام کے تحت عید کے دوسرے دن ہم چار دوست جنمیں دانش، ریحان، عبداللہ اور میں شامل تھے نماز فجر کے بعد مری سے کشمیر کے لیے رختِ سفر باندھا،اور تقریباً ایک گھنٹے کے بعد مظفر آباد پہنچے جہاں ہم نے ناشتہ نوش فرمایا اور اگلی منزل جو وادی نیلم تھی کی طرف روانہ ہوگے۔ وادی نیلم اپنے بے مثال قدرتی مناظر،اونچائیوں سے بہتے جھرنوں اور سرسبز پربتوں،بل کھاتے دریاؤں سے لپٹی دھند سے بھرپور ایک خوابیدہ جنت کا سا تصور پیش کرتی ہے۔

اٹھمقام سے تاؤ بٹ تک یہ وادی ایک جانب استور ،دوسری جانب وادی کاغان اور تیسری جانب مقبوضہ کشمیر کے بانڈی پورہ سے جڑتی نظر آتی ہے۔وادی نیلم سیاحوں کیلئے بے پناہ کشش کا باعث ہے۔جہاں سالانہ ہزاروں سیاح کشمیر میں پوشیدہ جنت اراضی کو کھوجنے کیلئے رخ کرتے ہیں۔
دریائے نیلم ،تاؤبٹ کے مقام سے مقبوضہ کشمیر سے آزاد خطے میں داخل ہوتا ہے اور مظفر آباد اور کوہالہ سے ہوتا ہوا خود کو دریائے جہلم کے سپرد کردیتا ہے۔یاد رہے اس رومانوی مگر ہر لمحے بپھرے ہوئے دریا کا قدیم نام کشن گنگا ہے۔آج بھی اسے مقبوضہ علاقے میں کشن گنگا کے نام سے ہی جانا جاتا ہے لیکن پاکستانی حدود میں اسے اب نیلم کا نام دے دیا گیا ہے۔

تقریباً چار گھینٹوں کی مسافت کے بعد آٹھمقام پہنچے جو وادی نیلم کا صدر مقام آٹھمقام ہے۔جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے گئے راستہ بھی سرسبز پہاڑوں سے گزرتا ہوا بلند سے بلند تر ہوتا چلا گیا۔اٹھمقام ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جس کے فوراً بعد کنڈل شاہی اور پھر چلیانہ کا مقام آیا جہاں سے لائن آف کنٹرول شروع ہوجاتی ہے۔خیال رہے نیلم وادی میں ہر وقت شناختی کارڈ اپنے ساتھ رکھیں۔اب جابجا فوجی چوکیاں دکھائی دے رہی تھیں اور مستعد فوجی اہلکار شناختی کارڈ کی چیکنگ کر رہے تھے۔کچھ ہی دور ہمارے دائیں طرف وادی نیلم کے پار نیچے گہرائی میں ایک چھوٹا سا قصبہ نظر آیا۔ جہاں ایک سکول کا میدان اور اس کے آس پاس گھر نظر آ رہے تھے۔یہ ٹیٹوال کا قصبہ تھا جو کہ مقبوضہ کشمیر کا سرحدی علاقہ ہے۔یہاں سے ایک سڑک مقبوضہ وادی کے اندر جاتے دکھائی دے رہی تھی۔یہاں سے لائن آف کنٹرول اگلے تین گھنٹے کے سفر میں ہمارے شانہ بشانہ چلتی ہے۔اس راستے میں مختلف جگہ پر تختیوں پر واضح لکھا گیا ہے Be Care Full,you are at LOC۔
آٹھمقام سےتیس منٹ کی مسافت کے بعد ہم اپنی پہلی منزل کیرن پہنچے۔کیرن پہنچتے ہی ہم نے سب سے پہلے نماز ظہر ادا کی۔کیرن میں سیاحوں کیلئے بہت ہی حسین ریزارٹ دریائے نیلم کے کنارے پر واقع ہیں۔جہاں نیلم کے دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کا گاؤں واقع ہے جو کہ کیرن ہی کہلاتا ہے۔دونوں حصوں کے درمیان حد فاضل دریائے نیلم ہے جو اس جگہ پر کچھ وسیع ہوجاتا ہے۔یہاں دونوں اطراف بلند بالا اور سبزے سے مزین پہاڑ موجود ہیں جن پر دیار کے گھنے جنگلات ماحول کو رومانویت سے بھر دیتے ہیں۔یہاں مجھے کیرن کے دونوں حصوں میں نمایاں فرق محسوس ہوا۔پاکستانی کیرن میں جا بجا کشمیری پشمینہ شالوں،کی دکانیں موجود ہیں،لوگ کشمیر کے روایتی پکوڑوں اور دیگر کھانوں کا لطف اٹھاتے نظر آتے ہیں اور کہی پر خوبصورت قدرتی نظاروں میں دوستوں کے ساتھ سلفیاں بناتے نظر آتے ہیں۔نیلم ریزاٹ میں ہر طرف گہما گہمی ہے۔مگر دوسری جانب مقبوضہ کیرن کی خالی خالی سی پگڈنڈیوں میں کبھی کبھار کچھ بچے دوڑتے نظر آتے ہیں اور کہیں کہیں انڈین فوج ہمہ وقت لائن آف کنٹرول پر نظریں گاڑے موجود رہتی ہے۔ذرااوپر ہمیں پہاڑ کی چوٹیوں پر سرحدی باڑ بھی دھوپ میں چمکتی دکھائی دی۔بھارتی فوجی اپنے کیرن کے لوگوں کی باقاعدہ گنتی کرتے ہیں۔اسی لئے اس علاقے میں خوف کی فضا ہر وقت موجود رہتی ہے،مجھے یہاں پر کچھ ویران گھر بھی نظر آئے۔جبکہ ہماری طرف کیرن میں ہر لمحہ زندگی اپنے جوبن پر نظر آتی ہے اور جگہ جگہ سبز ہلالی پرچم لہراتے نظر آ تے ہیں۔شائد کیرن کے دونوں کے اطراف بیک وقت اداسی اور خوشی کا فرق اس لئے بھی نظر آتا ہے کیونکہ ہمارے کیرن میں آزاد فضا کا تاثر ہر لمحہ جاگزین رہتا ہے۔جبکہ ہماری طرف بھی پاک فوج کے چاک و چوبند جوان اپنے مورچوں میں براجمان مادر وطن کا دفاع جانفشانی سے کرتے نظر آتے ہیں۔کیرن سے اوپر ایک راستہ نیلم گاؤں کی طرف بھی نکلتا ہے جہاں سے مقبوضہ علاقے کا خاصی گہرائی میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔اس پہاڑی پر ایک جھوٹا سا ریسٹورنٹ بنایا گیا ہے ہم نے یہاں پر بیٹھ کر چائے کے ساتھ پکوڑے کھائے اور اگلی منزل شادر کی جانب روانہ ہوگئے۔

راستے میں دیواریاں کا مقام آیا جہاں سے رتی گلی کے لئے پیدل ٹریک نکلتا ہےجو برف کے باعث بند تھا۔
دواریاں سے آگے سڑک انتہائی خطرناک ہے۔یہ سڑک سنگلاخ چٹانوں کو کاٹ کر بنائی ہے۔یہاں ڈرائیور کی ایک ذرا سی غفلت یا بے احتیاطی بڑے حادثے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔کیرن سے تقریباً ایک گھنٹے بعد دریائے نیلم کنارے،شاردہ کا حسین مقام آ جاتا ہے۔
رات کے تقریباً دس بج رہے تھے بھوک بھی شدید لگی ہوئی تھی دوستوں کی مشوارت کے بعد طعام و قیام شادرہ بازار میں ایک ہوٹل پر کیا گیا۔یہاں یہ ذکر کرتا چلو۔آپ جب بھی وادی نیلم کی طرف جائے کوشش کرے ایک دن کا کھانا گھر سے بنا کر لے کر جائےاور باقی دن کھانا خود بنا لیا جائے کیونکہ یہاں پر کھانا انتہائی ناقص ملتا ہے۔جو آپ کو مشکل میں ڈال کر آپکے کے ٹوور کی ستاناس کر سکتا ہے۔
صبح ناشتے کے فوراً بعد ہم لوگ شادرہ ٹورسٹ ویلج کی طرف روانہ ہوئے جو دریا کے دوسری طرف ہے۔یہاں شاردہ کی قدیم یونیورسٹی کے کھنڈرات کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

جس کی تاریخ وہاں پر کچھ یوں درج ہے۔

حوالہ تاریخ ہند قبل از تاریخ مشہور مسلمان البیرونی اپنی کتاب ،کتاب الہند ،میں شاردہ کا کچھ یوں ذکر کرتے ہیں، سری نگر کے جنوب مغرب میں شاردہ واقع ہے،اہل ہند اس مقام کو انتہائی متبرک تصور کرتے ہیں،اور بیساکھی کے موقع پر ہندوستان بھر سے لوگ یہاں کےلئے آتے ہیں،لیکن برفانی اور دشوار گزار علاقوں کے باعث میں خود وہاں نہیں جا سکا ، شاردہ یونیورسٹی کا قدیم نام شاردہ پتھ(Sharda Peth)ہے،پتھ Pethقدیم سنسکرت زبان سے تعلق رکھتا ہے،اس کے لغوی معنی ایسی جگہ یانشست گاہ کے ہیں جس کو روانی تکریم سے نوازا گیا ہو،شمالی ہندوستان سمیت اکثر جگہوں پر یہ لفظ عالم قسم کے مذہبی اداروں کےلئے استعمال ہوتا رہا ہے کنشک اول (نیپال کا شہزادہ) کے دور میں شاردہ وسط ایشیا کی سب سے بڑی تعلیمی وتدریسی درسگاہ تھی،یہاں بدھ مت کی باقاعدہ تعلیم کےساتھ ساتھ تاریخ جغرافیہ،ہیت،منطق اور فلسفے پر مکمل تعلیم دی جاتی تھی اس درسگاہ کا اپنا رسم الخط تھا جو دیوتا گری سے ملتا جلتا تھا،اس رسم الخط کا نام شاردہ تھا اسی مناسبت سے موجودہ گاﺅں کا نام بھی شادرہ ہے اس عمارت کو کنشک اول نے24،تا27ءمیں تعمیر کروایا تھا ، شاردہ یونیورستی کی عمارت شمالاً جنوباًمستطیل چبوترے کی شکل میں بنائی گئی ہے،عمارت کی تعمیر آج کے انجینئرز کو بھی حیرت میں ڈال دیتی ہے ۔
یہ عمارت برصغیر میں پائی جانے والی تمام قدیمی عمارتوں سے مختلف ہے خاص کراس کے درمیان میں بنایا گیا چبوترہ ایک خاص فن تعمیر کا نمونہ پیش کرتا ہے جو بڑا دلچسپ ہے ، اس کی اونچائی تقریباً سوفٹ ہے اس کے چاروں طرف دیواروں پر نقش و نگار بنائے گئے ہیں جبکہ جنوب کی طرف ایک دروازہ ہے عمارت کے اوپر چھت کا نام ونشان باقی نہیں ہے ، تاہم مغرب میں اندر داخل ہونے کےلئے تریسٹھ(63)سیڑھیاں بنائی گئی ہیں آج بھی کچھ قبائلی تریسٹھ زیورات پر مشتمل تاج ہاتھی کو پہناتے ہیں اور پھر اس کی پوجا کرتے ہیں،تریسٹھ کا عدد جنوبی ایشیا کی تاریخ میں مذہبی حیثیت رکھتا ہے بدھ کے عقائد سے ملتی جلتی تصاویر اس میں آج بھی نظر آتی ہیں ان اشکال کو پتھر میں کریدکربنایا گیا ہے اس عمارت میں ایک تالاب بھی ہوتا تھا جو آج موجود نہیں ہے امراض جلد سے متاثرہ لوگ اس میں غسل کرتے اور شفاءپاتے تھے،کیونکہ یہاں آنےوالا پانی دو کلو میٹر دور سے سلفر ملے ہوئے تالاب سے لایا جاتا تھا،اس کے علاوہ کشمیر کے پہاڑوں کے دامن میں شردھ(شاردہ) نامی لکڑی کا حیرت انگیز بت تھا جس کے پاﺅں کو چھونے سے انسان کو ماتھے پرپسینہ پھوٹ پڑتھا ،نیز اشٹامی کی مقدس رات کے نصف پہر کو شاردہ تیر تھ کامرکزی حصہ کسی غیبی طاقت کی مدد سے جھومتا تھا ،بحوالہ (ابوالفضل آئین اکبری)۔

۔شاردہ میں کچھ دیر ٹھہر کر اب ہم کیل کی جانب روانہ ہوگئے جو کہ شاردہ سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ایک نہایت دلفریب قصبہ ہے۔شادرہ سے کیل تک سڑک ناپختہ ہے۔اس راستے میں ہر ایک کلو میٹر کے بعد بکر وال ملتے رہے جن کے قافلے میں سینکڑوں بکریاں ہوتی جو ٹریفک کی روانی میں خلل ڈالتی اس طرح کیل کا سفر جو دو گھنٹوں کا تھا پانچ گھینٹوں میں طے ہوا۔

کشمیر میں جہاں اچھے کھانے اور اچھے ہوٹلوں کا مسئلہ ہے وہی پر پاکستانی موبائل نیٹ ورک کا مسئلہ ہے۔جب آپ کشمیر کا وزٹ کرے تو مظفرآباد سے Scom کی سِم خرید کر موبائل میں ڈال لے۔
کیل پہنچ کر جب گھر والوں سے رابطہ کے لیے نئی سِم خریدنے Scom کے دفتر پہنچے تو دفتر بند تھا، دفتر کے ساتھ ایک دوکاندار جن کا نام اعجاز تھا سے کال کے لیے جب موبائل مانگا تو اس نے فوراً موبائل دے دیا جب کال کرنے کے بعد موبائل میں نے اعجاز کو واپس دیا تو اس نے کہا آپ کتنے دن یہاں موجود ہیں تو میں نے کہاں ایک دن۔۔۔
اعجاز نے کہا آپ کو دوبارہ موبائل کی ضرورت ہوگی لہذا آپ میرا موبائل اپنے پاس رکھ لیں۔میں نے کہا موبائل آپ کو ضرورت ہوگا لہذا میں ایسا نہیں کر سکتا!
اعجاز کے اصرار پر میں نے اس سے کہا چلے آپ سِم دے دیں، اعجاز نے جواب دیا یقیناً اپ اپنے موبائل میں تصویرے بنائے گے تو یہ بند ہو جائے لہذا آپ میرا موبائل اپنے پاس رکھ لیں اور واپسی پر مجھے واپس کر دیجیے گا۔میں نے عبداللہ سے مشاورت کے بعد موبائل رکھنے کا فیصلہ کیا اور اپنی جیب سے شناختی کارڈ نکالکر اعجاز کو دیا کہ جب تک میں واپس آتا اپ یہ اپنے پاس رکھے،اس نیک شخص نے مجھ پر اعتماد کرتے ہوئے کہا اس کی ضرورت نہیں۔یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کیل کے لوگ انتہائی مہمان نواز ہیں۔

کیل دفاعی لحاظ سے ایک حساس علاقہ ہے۔یہاں فوج کا ایک بریگیڈ تعینات ہے۔ہماری منزل اب اڑنگ کیل تھا ۔جو کہ کیل کے بالکل ساتھ ایک پہاڑ کے اوپر واقع ایک دلکش چراگاہ ہے ۔

اس چراگاہ کے پار گھنے جنگلات سے مزین پہاڑ کے پیچھے مقبوضہ کشمیر کا گریز کا علاقہ موجود ہے ۔پاک فوج نے یہاں پیلے رنگ کی ایک محفوظ لفٹ کا بندوبست کر رکھا ہے ۔جس کے ذریعے اڑنگ کیل پہنچا جاسکتا ہے ۔یہ لفٹ پہاڑ پر ایک مقام پر اتار دیتی ہے جہاں سے چالییس منٹ کا ٹریک کر کے اڑنگ کیل کا دیدار کیا جاسکتا ہے۔جب ہم لفٹ کے پاس پہنچے تو ایک لمبی قطار لگی تھی اور مغرب کا وقت بھی نزدیک تھا ہم نے فیصلہ کیا کہ رات کیل میں ہی گزاری جائے اور صبح سویرے اڑنگ کیل کی جانب روانہ ہوا جائے۔کیل ایک چھوٹا سا بازار ہے جہاں چند ہوٹل اور گیسٹ ہاؤس بھی موجود ہیں۔رات ہم نے ایک گیسٹ ہاؤس میں گزاری۔صبح نماز فجر ادا کرنے کے بعد ہم نے ناشتہ کیا اور
اپنی اگلی منزل اڑنگ کیل کے لیے کچھ ضروری سامان اپنے ساتھ رکھ کر جب ہم لفٹ کے پاس پہنچے تو رات کی طرح ایک لمبی قطار لگی تھی آخرکار فیصلہ یہ ہوا کہ ٹریک کے زریعے اڑنگ کیل پہنچا جائے۔خیال رہے یہ ٹریک خاصا ناہموار اور اونچائی کی جانب واقع ہے لہذا دوران ٹریکنگ سٹک اپنے ہمراہ ضرور رکھے.

رات کو ہونے والی بارش کیوجہ سے سارا ٹریک کیچڑ سے بھرا پڑا تھا۔کئی لوگ تو ٹریکنگ سے تائب ہوگئے جبکہ کچھ سرفروش ہمارے ساتھ اڑنگ کیل کی طرف بڑھنے لگے اور کیچڑ،پھسلن اور بارش کے باوجود آخر کار اڑنگ کیل پہنچ گئے ۔یقین مانئے اتنی جدوجہد کے بعد اوپر ایک اور ہی منظر ہماری راہ دیکھ رہا تھا۔ہمارے سامنے سبز گھاس کا جیسے ایک فرش ایستادہ تھا۔

اور اس پر لکڑی کے خوبصورت گھر بنے ہوئے تھے۔جبکہ اس گھاس کے عقب میں گھنے جنگل سے بھرپور سرسبز پہاڑ، ماحول کو مزید تابناک بنا رہا تھا۔یہ خوبصورت منظر دیکھ کر راستے کی ساری تھکاوٹ دور ہوگئی۔سارا دن ہم نے یہی پر گزار اور وقت کا احساس تک نا ہوا۔دل یہ چاہ رہا تھا کہ بس یہی کے ہوکر رہ جائے نا چاہتے ہوئے بھی ہمیں واپسی کا راستہ اختیار کرنا پڑا اور ہم بہت سی حسین یادیں لے کر بزریعہ لفٹ کیل پہنچے اور مری کی طرف واپس روانہ ہوگے۔

۔وادی نیلم کے اس سفر میں جہاں کیرن ،شاردہ اور اڑنگ کیل کے دلکش نظاروں نے دل موہ لئے وہاں کشمیریوں کی مہمان نوازی نے بھی یقیناً ہم کو ازحد متاثر کیا۔کشمیر کے اس حسین خطے نیلم ویلی ضرور آئیے جہاں روح کو تازگی بخشنے کے لئے قدرت نے سارا سامان وافر مقدار میں جمع کر رکھا ہے۔شہنشاہ جہانگیرنے کشمیر کے متعلق درست ہی کہا تھا کہ دنیا میں اگر کہیں جنت ہے تو یہی ہے یہی ہے یہی ہے ۔

صحرا کا شیر

عمر مختار لیبیا پر اطالوی قبضے کے خلاف تحریک مزاحمت کے معروف رہنما تھے۔ وہ 1862ء میں جنزور نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1912ء میں لیبیا پر اٹلی کے قبضے کے خلاف اگلے 20 سال تک تحریک جہاد کی قیادت کی۔
اکتوبر 1911ء میں اٹلی کے بحری جہاز لیبیا کے ساحلوں پر پہنچے۔ اطالوی بیڑے کے سربراہ فارافیلی نے مطالبہ کیا کہ لیبیا ہتھیار ڈال دے بصورت دیگر شہر تباہ کر دیا جائے گا۔ حالانکہ لیبیائی باشندوں نے شہر خالی کر دیا لیکن اٹلی نے ہر صورت حملہ کرنا تھا اور انہوں نے تین دن تک طرابلس پر بمباری کی اور اس پر قبضہ کر لیا۔ یہیں سے اطالوی قابضوں اور عمر مختیار کی زیر قیادت لیبیائی فوجوں کے درمیان میں جنگوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
عمر مختار جو معلم قرآن تھے صحرائی علاقوں سے بخوبی واقف تھے اور وہاں لڑنے کی حکمت عملیوں کو بھی خوب سمجھتے تھے۔ انہوں نے علاقائی جغرافیہ کے بارے میں اپنی معلومات کا اطالوی فوجوں کے خلاف بھرپور استعمال کیا۔ وہ اکثر و بیشتر چھوٹی ٹولیوں میں اطالویوں پر حملے کرتے اور پھر صحرائی علاقے میں غائب ہوجاتے۔ ان کی افواج چوکیوں، فوجی قافلوں کو نشانہ بناتی اور رسد اور مواصلات کی گذرگاہوں کو کاٹتی۔اسی لیے اپکو گوریلا جنگ کا ماسٹر اور The lion of Desert کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

عمر مختار کی زیر قیادت مزاحمتی تحریک کو کمزور کرنے کے لیے اطالویوں نے نئی چال چلی اور مردوں، عورتوں اور بچوں کو عقوبت گاہوں میں بند کر دیا۔ ان عقوبت گاہوں کا مقصد یہ تھا کہ مزید لیبیائی باشندوں کو عمر مختار کی مزاحمتی تحریک میں شامل ہونے سے روکا جائے۔ ان کیمپوں میں ایک لاکھ 25 ہزار باشندے قید تھے جن میں سے دو تہائی شہید ہو گئے۔

اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو قید کرنے کے باوجود عمر مختار کی تحریک رکی نہیں بلکہ انہوں نے اپنے ملک اور عوام کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد جاری رکھی۔

عمر مختار کی 20 سالہ جدوجہد اس وقت خاتمے کو پہنچی جب وہ ایک جنگ میں زخمی ہوکر اطالویوں کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے۔

اس وقت ان کی عمر 70 سال سے زیادہ تھی اور اس کے باوجود انہیں بھاری زنجیروں سے باندھا گیا اور پیروں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں۔ ان پر تشدد کرنے والے فوجیوں نے بعد ازاں بتایا کہ جب انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا یا تفتیش کی جاتی تو وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قرآن مجید کی آیتیں تلاوت کرتے۔

ان پر اٹلی کی قائم کردہ ایک فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور سزائے موت سنادی گئی۔ تاریخ دان اور دانشور ان پر عائد مقدمے اور عدالت کی غیر جانبداری کو شکوک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان سے جب آخری خواہش پوچھی گئی تو انہوں نے “انا للہ و انا الیہ راجعون” پڑھا۔

انہیں 16 ستمبر 1931ء کو سرعام پھانسی دے دی گئی کیونکہ اطالوی عدالت کا حکم تھا کہ عمر مختار کو پیروکاروں کے سامنے سزائے موت دی جائے۔
آج کل ان کی شکل لیبیا کے 10 دینار کے نوٹ پر چھپی ہوئی ہے جبکہ دنیا کی سب سے بڑی فلمی صنعت ہالی ووڈ نے 1981ء میں ان کی زندگی پر ایک فلم “The Lion of Desert” یعنی “صحرا کا شیر” بنائی۔

عمر مختار کو شہید ہوئے ایک صدی ہونے والی لیکن اپ کا نظریہ اج بھی قائم دائم ہے آپ کی جنگی حکمت عملیاں آج بھی استعمال کی جارہی ہیں اسکی تازہ مثال افغان جہاد ہے

دو تصویریں اور دو کہانیاں

پہلے تصویر میں شکاری شیر کی طرح امریکیوں پر نظریں جمائے ہوئے انتہائی مہذب طریقے بیٹھے ہوئے وہی ملا ضعیف ہیں۔ جسے فرعونِ وقت، رذیل اعظم جنرل پرویز مشرف نے بے آبرو کرنے کی کوشش کی اور سفارتی اصولوں کی دھجیاں اڑا کر امریکیوں کے حوالے کیا۔

جیل صعوبتیں برداشت کی اور مصیبتوں کے دریا عبور کئے۔
ننگا کرکے بھوکے کتے چھوڑے گئے۔ لوہے سے داغا گیا۔

کوئی ظلم نہیں چھوڑا جو ان پر نہ کیا ہو۔
لیکن پھر اللہ کی شان دیکھیں۔
وہی ملا ضعیف اب امریکیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال اپنے مطالبات منوا رہا ہے اور سرخ امریکی سور ان کے سامنے بھیگی بلی بنی ہوئی ہے۔
جبکہ اب دوسرا تصویر ملاحظہ ہو۔
وہی فرعونی لہجے میں خود کو خدا سمجھنے والا پرویز مشرف جس نے سفارتکار ملا ضعیف کو قیدی بنا کر اپنے ناجائز باپ امریکہ کو پیش کیا تھا۔ اب اللہ کے غضب کا شکار ہیں اور ایچ آئی وی ایڈز میں مبتلا ہے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ زندگی سے زیادہ موت کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔ کمانڈو بن کر مکا لہرانے والا کتے کی موت مر رہا۔